علامہ محمد اقبال

           ✴️علامہ محمد اقبال.✴️

        دنیا کی مختلف علاقوں اور مختلف زبانوں میں بڑے بڑے عظیم شاعر پیدا ہوئے ہیں لیکن ان کی عظمت کسی نہ کسی حوالے سے محدود ہے. یہاں زبان و ادب میں ایک شاعر ایسا بھی ہے جو ہر حوالے سے عظیم اور آفاقی شاعر ہے. اس عظیم ترین شاعر کا نام علامہ محمد اقبال ہے اور یہ میرے پسندیدہ شاعر ہیں. دنیا میں اتنا بڑا اور عظیم شاعر کبھی پیدا نہیں ہوا.

زندگی کےحالات:

          علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے. ابتدائی تعلیم سیالکوٹ ہی میں حاصل کی اور انہیں وہاں نہایت قابل استاد مولوی میر حسن سے صحبت حاصل رہی ان کی صحبت نے علامہ اقبال کی فطری جوہر بیدار کر دئے اور ان کی زندگی کا رخ متعین کردیا میرے کالج سیالکوٹ سے فارغ ہوکر علامہ اقبال لاہور تشریف لے آئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے پر فلسفہ کا امتحان پاس کیا. گورنمنٹ کالج لاہور میں علامہ اقبال کی پروفیسر آرنلڈ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا. ایم اے کرنے کے بعد آپ کچھ عرصہ اسی کالج میں پڑھاتے رہے اور پھر اعلی تعلیم کی غرض سے یورپ چلے گئے. لندن میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا اور پھر جرمنی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی. وطن واپس آکر علامہ اقبال نے وکالت شروع کر دیں اور وکالت کو ہی ذریعہ معاش بنائے رکھا. علامہ اقبال نے اپنی ساری شاعرانہ زندگی مسلمانوں کے لئے وقف کر دی اور ان کے دلوں میں آزادی و حریت کی شمع روشن کر دی آپ 21 اپریل 1938ء کو اس فانی زندگی کے سال پوری کرکے اپنے مالک حقیقی سے جاملے اور لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں دفن ہوئے.  

         علامہ اقبال نے مجموعی طور پر ملت اسلامیہ کے لیے شاعری کی ہے اور مسلمانوں کے دلوں میں آزادی وحریت کی شمع روشن کی ہے. انہوں نے فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں شاعری کی ہے اور بہت سی کتابیں لکھی ہے. بانگ درا ,ضرب کلیم, بال جبرئیل, پیام مشرق, زبور عجم, اسرار خودی, رموزبےخودی, پس چہ بائد کرداے اقوام مشرق, اور جاوید نامہ اقبال کی مشہور کتابیں ہیں.  آپ کی شاعری میں جو خاص خاص تصورات ملتے ہیں ان میں فلسفہ خودی, فلسفہ مرد مومین اور فلسفہ قومیت قابل ذکر ہیں. 

1) فلسفہ خودی :

         علامہ اقبال نے خودی کا جو نظریہ پیش کیا ہے اس کا مقصد انسانیت ہے اپنی ذات کو پہچان لینے کا نام خودی ہے جب انسان کی خودی بیدار ہو جاتی ہے تو اس میں صفات الہی پیدا ہو جاتی ہیں.  علامہ اقبال خودی کے تین درجات بیان کئے ہیں.     1) ضبط نفس 2) اطاعت 3) نیابت الہی

                 خودی کا  سر نہاں  لا الہ الا اللہ

                 خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ

فلسفہ مرد مومین:
         علامہ اقبال جس مثالی انسان کا تصور پیش کیاہے وہ مرد کامل یا مرد مومن ہے. جب انسان اپنی خودی کو بیدار کرکے نیابت الہی کا درجہ حاصل کر لیتا ہے تو پھر اس میں خدائی صفات اور خدائی قوتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور اس کا حکم حکم الہی بن جاتا ہے جیساکہ اس شعر سے ظاہر ہے:
       کوئی اندازہ لگا سکتا ہے اس کے زور بازو کا
        نگاہِ مردِ مومن  سے  بدل  جاتی ہے تقدیریں
3) فلسفہ قومیت :
          علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں مسلمانوں کے سامنے خالص اسلامی فلسفہ قومیت پیش کیا ہے. اقبال کہتے ہیں کہ قوم رسول ہاشمی کی ترتیب اور ترکیب اقوام مغرب سے بالکل مختلف ہے. اسلامی فلسفہ قومیت کے مطابق قوم نہ تو زبان سے بنتی ہے نہ رنگ و نسل سے اور نہ ہی جغرافیائی حدود سے اسلامی قومیت کی بنیاد توحید و رسالت پر ہے اور تمام کلمہ گو مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی خطے میں رہتے ہوں وہ ایک ہی خوب ہے.
    بستان رنگ خواہ کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
    نہ  ایرانی  رہے  باقی  نہ  تورانی  نہ.  افغانی
              اس کے علاوہ علامہ اقبال نے مسلمانوں کو بتایا ہے کہ ان کے لیے سب سے بڑی قوت عشق رسول ہے. اگر مسلمانوں کے دلوں میں عشق رسول کی شمع روشن ہوجائے تو پھر دنیا میں ان پر کوئی قوم غلبہ حاصل نہیں کر سکتی اسی لئے وہ فرماتے ہیں کہ.  
       قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے.
      دھر  میں اسم محمد  سے اُجالا  کر دے.

🌹📚🇵🇰💠✒️💠✒️💠🇵🇰📚🌹

🇵🇰احمد علی🇵🇰


     

Comments

Popular posts from this blog

سائنس کے کرشمے

میرا وطن

کسی میچ کا انکھو دیکھا حال